غزل گویا ہے ہر زباں پہ ، کیسے وہ چھپا دے جو زخم میرے دل میں تھا، جا کے یہ بتا دے جتنی ذلّتیں اُس نے اٹھائی ہیں پردیس میں کوئی جیسا اس مُلک میں ، کہی کر کے کما دے قسمت نے کر دکھایا جو ، یاد رکھے گا ہر پَل تدبیر سے گر بھول ہو ، تو کوئی آسرا دے جس وقت نے بے گناہ منصور کو دار پہ کیا فریادِ زخمِ دل کی ہم کس کس کو سنا دے جو وقت کا قاتل ہو ، کیسے پائے گا منزل مظلوم پہ رحم کرے ، ظالم کو سزا دے امکان اب پیدا کر ، کہ یاد پھر سے تازہ برسوں سے جو بچھڑا ہے، اُسے پھر سے ملا دے جس فرد سے نہیں ہوا اس خاک میں انصاف فرعون کے اُس تخت پہ ، موسیٰ کو بٹھا دے مجھ سے یہ تقاضا مت کر ، پوچھ اُن سے طاہرؔ جو خود ہی بھیک مانگے، وہ پھر کسی کو کیا دے لیک ڈاکٹر محمد طاہر طاہر یوسُفزی i need to design this ghaza
Instant Quality - Flux Pro 1.1